افغانستانی مہاجرین کے بارے میں معروف ایرانی اسکالر ڈاکٹر زیبا کلام کا صدر حسن روحانی کے نام کھلا خط!

ترجمہ- اسحاق محمدی
عزتماب ڈاکٹر حسن روحانی، صدر اسلامی جمہوری ایران!

نہایت ادب سے عرض ھے کہ حکومتی اہلکاروں نے افغانستانی مہاجرین کو 6 ستمبر تک ملک چھوڑنےکی ھدایت کی ھے۔ یہ پہلی یا Publication1شاید آخری بار نہیں کہ ایران انکو اجتماعی طور پرنکالنے کا کہہ رھا ھے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ھے کہ ایران میں مقیم افغانستانی مہاجرین، تمام اسلامی، انسانی، اخلاقی اور بین لاقوامی حقوق سے محروم ہیں۔ یہ   مسلمہ بین الاقومی اصول ہیں کہ کوئی شخص چاھے وہ کسی بھی ملک میں غیرقانونی طورپرداخل کیوں نہ ھوا ھو، ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد وہ ان تمام بنیادی حقوق کے حقدار بن جاتاھے جو کہ اس ملک کے عام شہریوں کو حاصل ہیں۔ لیکن افسوس کہ ایران میں افغانستانی مہاجرین کیلئے ایسے کسی حقوق کا تصور بھی نہیں۔ ایک افغان مہاجر چاھے وہ ایران میں دس،بیس یا تیس سال کیوں نہ رھا ھو، اسکی شادی ایرانیوں میں ھوئی ھو اورتمام ھست وبود کے مالک بنے ھو، اسے اس ملک سے نکال پھینکنا بہت آسان ھوتا ھے۔

فطری طورپر ھر انسان کی خواہش ھوتی ھے کہ وہ اپنے ملک میں رھے، لیکن اگر کوئی ایرانی مغرب میں یا افغانستانی، ایران میں پناہ لیتا ھے تو اسکی بنیاد وجہ ظلم ھے۔ ھمیں معلوم ھے کہ افغانستان میں کیا حالات ہیں۔ اورھم یہ بھی مانتے ہیں کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں ایران کا عمل دخل نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ھے کہ جب کوئی افغانستانی، ایران میں چند سال رہ کر اپنی انتھک محنت سے اپنی زندگی بنا لیتا ھے، جیسے کہ تین ملین کے قریب ایرانیوں نے یورپ میں بنا لئے ہیں، ایسے میں کیا یہ درست عمل ھوگا کہ مغربی ممالک اپنے ھاں بیکاری کی آڑ لیکرانکوملک بدر کردیں؟ حالانکہ ھمارے حساب سے وہ کافر، ملحد، یہود اورصہونزم کے حامی ہیں لیکن اسکے باوجود انہوں نے کبھی بھی غیرملکیوں کو نکال کراپنے لوگوں کو کام دلانے کے بارے میں سوچا تک نہیں بلکہ اسکے برعکس مسلم اورغیرمسلم دونوں یکساں حقوق کے حامل ہیں، اب یہ کونسا اسلامی، انسانی اور اخلاقی قانون ھے کہ ھم، ایران میں، مقیم افغانیوں کیلئے کسی قسم کے حقوق کے قایل ھی نہیں۔ حالانکہ وہ سالوں سے یہاں رہ رھے ہیں، انکی ایرانیوں میں شادیاں ھوئی ہیں۔ اسی طرح کا سلوک متحدہ عرب امارات نے ایرانیوں کے ساتھ روا رکھا، سالوں سے مقیم ایرانیوں کونکال باہر کیا، کیا انکا یوں اخراج درست تھا؟

عزتماب صدرمملکت! کیا متحدہ عرب امارات کا ایرانیوں اور ھم ایرانیوں کا افغانستان مہاجرین سے سلوک میں کوئی فرق ھے؟ بطورخاص اب جب کہ ھمارے بعض اکابرین یہ کہ رھے ہیں کہ ھماری آبادی کو ڈبل یعنی 150 ملین ھونا چاھیے، ایسے میں ھم اپنے چند لاکھ ھم زبان، ھم مسلک اور ھم نژاد افغان بھائیوں کو کیوں نہیں رکھ سکتے؟ کیا ھمارے لئے یہ شرم کا مقام نہیں کہ افغانی بچے unnamedایران میں سکول نہیں جاسکتے، ہیلتھ کارڈ یا انشورنس حاصل نہیں کرسکتے۔ حالانکہ مغرب میں ایرانی تمام حقوق سے بہرہ ور ہیں۔ مزید برآں ھم ایران میں پیدا ھونے والے انکے بچوں کو شناختی کارڈ نہیں دیتے، ایرانیوں سے انکی شادیوں کوتسلیم نہیں کرتے، حتیٰ کہ انہیں بنک اکاونٹ کھولنے تک کی اجازت نہیں۔ کیا اس سے بڑھکر بھی کوئی ظلم یا نسلی امتیاز ممکن ھے؟۔ افغانستان مہاجرین سے ھمارے غیرانسانی رویے میں سے ایک انکی کئی شہروں میں داخلے پر پابندی لگانا بھی ھے جسکی ھم سرِعام پرچار بھی کرتے ہیں، کیا ھمارا یہ عمل، قرون وسطیٰ میں کیجانے والے اقدام، جرمن نازیوں کے یہودیوں کے خلاف اقدام یا پھر امریکا اور جنوبی افریقہ میں سفید فاموں کے کالوں کے خلاف نسلی امتیاز کی یاد نہیں دلاتا؟۔

آپ عزتماب سے التماس ھے کہ آپ ان اہلکاروں کو حکم دیں کہ وہ ان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی الٹی میٹم دینے کی بجاے ان سے مہذب دنیا کی طرح انسانی سلوک سے پیش آیں۔ نیزذی صلاحیت افراد کو مقرر فرمایں تا کہ وہ اس ملک میں تین دھایوں کے بعد ان مہاجرین کے انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنایں، جہاں کسی بھی "صاحب” کے صرف ایک بیان پر، یا وزارت داخلہ کے کسی آفیسر اور یا پھر کسی بھی پولیس آفیسر کے حکم پر، ان مہاجرین کی زندگیاں تہہ بالا ھوجاتی ہیں۔ اب مزید ایسا نہیں ھونا چاھیے انہیں با ثبات زندگی کا حق ملنا چایئے۔ خدا کی قسم ان مہاجرین کی زندگیوں میں درد و رنج و الم کے سوا کچھ نہیں۔

عزتماب صدرِ مملکت! ایسا کام کیجئے کہ ھم ایرانی کی حیثیت سے ان ستم دیدہ افغانستانی مہاجرین سے آنکھیں ملانے کے قابل ھوسکیں جنکا جرم صرف اتنا ھے کہ وہ افغانستان مین پیدا ھوے ہیں۔

منبع:-

http://www.afghanpaper.com/nbody.php?id=57747


Join the Conversation