یوم القدس ایک ایرانی ایجنڈا

تحریر: حسن رضا چنگیزی

 "شیعوں کو فلسطین میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ہم ایک سلفی فلسطین کی تشکیل کی راہ پر گامزن ہیں ۔ فلسطین مشرق وسطیٰ میں ایک سلفی معاشرے کے لئے بہترین خطہ ہے اور میں ایک سلفی فلسطین کا حامی ہوں”
یہ الفاظ فلسطینی صدر محمود عباس کے ہیں جو 2 جون 2014 کو دئے گئے ان کے ایک ایسے بیان کا حصّہ ہیں جسے ایرانی زرائع ابلاغ نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس بیان میں آگے جا کر محمود عباس نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اس سلسلے میں "حماس” سے بھی بات ہو چکی ہے اور امید ہے کہ ملک کو جلد اس مشکل سے نجات مل جائیگی۔

شیعہ نیوز کی اس خبر کے آخر میں امریکی سکریٹری آف سٹیٹ جان کیری کی بات کا بھی حوالہ موجود ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ "مجھے خوشی ہے کہ حماس سلفی عقیدے پر کاربند ایک گروہ ہے جس کی مدد سے فلسطین کی مزاحمتی تحریک کو خاموش کیا جاسکتا ہے”
جی ہاں یہ وہی محمود عباس ہے جو 11 نومبر 2004 میں یاسر عرفات کی وفات کے بعد پی ایل او کے چئرمین اور 15 جنوری 2005 کو فلسطینی اتھاریٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ اور اس بیان میں حماس نامی جس گروہ کا ذکر ہے یہ امریکا کا منظور نظر وہی گروہ ہے جس نے غزہ کی پٹی پر قبضہ جمانے کے لئے تنظیم آزادی فلسطین سے کئی خونریز جنگیں لڑیں۔ یہ وہی حماس ہے جو کافی عرصے سے محمود عباس کے ساتھ مل کر حکومت کے مزے اٹھاتی رہی ہے ۔اور یہ وہی حماس ہے جس کو نہ صرف ایران کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے بلکہ ان کے رہنماؤں خالد مشعل اور اسماعیل ہانیہ کی ایران میں ویسی ہی آہ و بھگت کی جاتی ہے جس طرح اس سے قبل گلبدین حکمت یار اور القاعدہ کے رہنماؤں کی کی جاتی رہی ہے۔
دوسری طرف ہم ہیں کہ ” بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ” بن کر اسی محمود عباس اور حماس کی محبت میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں جو آزادی فلسطین کے فلسفے کو یکسر بھول کر حکومت کے مزے لوٹنے اور فلسطین کو عراق اور شام کی طرح فرقوں میں تقسیم کرکے خانہ جنگی کروانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
جی ہاں بات ہو رہی ہے یوم القدس کی جو ایک خالصتاَ ایرانی سیاسی ایجنڈا ہے۔ یہ دن آیت اللہ خمینی کے اس فرمان کے تحت منایا جاتا ہے جو انہوں نے 1979 میں دیا تھا۔ تب فلسطین کی تحریک انتفاضہ زوروں پر تھی اور فلسطینی اپنے ملک کی آزادی کی خاطر اسرائیل سے پرسر پیکار تھے۔ اس دن کو منانے کا مقصد فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ سے یکجہتی کا اظہار تھا۔ آج اس”فتویٰ” کو 35 سال گذرچکے ہیں جبکہ خمینی کو گزرے بھی 25 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ادھر فلسطینی رہنماء بھی ہتھیار پھینک کر اور جنگ و جدل بھول کر ایک عشرے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ لیکن چونکہ ایران اس مسئلے کو ایک سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرتا آرہا ہے اس لئے ہر سال یوم القدس کے موقع پر نہ صرف لاکھوں افراد ایران کی سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرتے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ایرانی بھی یہ دن منا کر اپنے ملک ایران سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کچھ گنتی کے ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس سیاسی ایشو کو ایک مذہبی تہوار کا درجہ دے رکھا ہے اور اسے ثواب کے حصول کا ایک آسان زریعہ بتاکر لوگوں کے عقاید سے کھلواڑ کرنے میں مصروف ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ شیعہ عقاید کی رو سے وفات پانے والے کسی مجتہد کی تقلید جایز نہیں ایسے میں 25 سال بعد بھی خمینی کی کہی ہوئی بات پر آنکھ بند کرکے عمل کرنے اور معصوم اور سادہ لوح جوانوں کی زندگیاں داؤ پر لگانے کو ایرانی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
اسی ایرانی ایجنڈے کی تکمیل اور پاکستان میں ایران سعودی پراکسی جنگ کے شعلے بھڑکانے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی خاطر 2010 میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے نام پر ایک ایسا ہی غیر ضروری ڈرامہ ترتیب دیا کیا تھا۔ اس ڈرامے کے منتظمین ایرانی مدرسوں سے پڑھ کر لَوٹنے والے وہی لوگ تھے جن کا کوئٹہ کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھانے میں کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ وہی لوگ تھے اور ہیں جو معصوم نوجوانوں سے "شہادت سعادت” کے نعرے لگواتے ہیں لیکن خود مسلح محافظوں کی بھاری بھرکم فوج کے بغیر گھر سے باہر بھی نہیں نکلتے۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایران کے کہنے پر لبنان اور فلسطین کے لئے احتجاج کرکے سینکڑوں جوانوں کو تو خون میں نہلا دیا لیکن لوگوں کے اذہان میں ابھرنے والے اس سوال کا آج تک جواب نہ دے سکے کہ گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران ہم پر جو قیامت ٹوٹی اس کے خلاف آج تک فلسطین، لبنان یا ایران میں کوئی احتجاج کیوں نہیں ہوا؟ کاش اسی یوم القدس پر نکالے گئے جلوس کے شہداء سے ہی کسی "مظلوم فلسطینی” نے کوئی تعزیت کی ہوتی۔
ہاں یہ وہی لوگ تھے اور ہیں جو کبھی یہ نہ بتا سکے کہ دہشت گردی سے بھاگ کر کافروں کے ملک میں پناہ لینے والوں کو شیعہ ملک ایران نے اپنی آغوش میں جگہ کیوں نہیں دی؟ جن کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ ایران میں صرف ہزارہ ہی کو کیوں افغانی خر، بربری اور کثیف کہہ کر پکارا جاتا ہے جبکہ باقیوں کو "ہم غوارہ” کہہ کر سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے؟ وہ اس سوال کا بھی کبھی جواب نہیں دے سکے کہ ایران میں پیدا ہونے والے ہزارہ بچّوں کو اسکول میں داخلے کی اجازت کیوں نہیں؟ جو اس سوال پر بھی بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں کہ ایران سے آج تک کوئی ہزارہ انجنئیر یا ڈاکٹر بن کر کیوں نہیں آیا؟ جو بڑی بے شرمی سے ان حقائق کو جھٹلاتے ہیں کہ ایرانی سپاہ پاسداران بھوکے ننگے "بربریوں اور افغانی خر” کو زبردستی شام اور عراق کی جنگ میں جھونک رہی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے پیشرؤوں نے 1985 میں کہا تھا کہ "من کوئتہ را لبنون میسازم” اور اپنے پیشرؤوں کے نقش قدم پر چلنے والے یہ وہی "راہنماء” ہیں جنہوں نے ان کے ادھورے کام کو سرانجام دینے اور کوئٹہ کو لبنان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
2010 کا واقعہ اب اتنا پرانا بھی نہیں جسے کھنگالنے کے لئے تاریخ کی کتابوں کا سہارا لینا پڑے۔ ہر سال اس منحوس دن کی آمد کے ساتھ ہی علمدار روڑ اور ہزارہ ٹاؤن کے گلی کوچوں سے آتی "شہداء” کے لواحقین کی دبی دبی سسکیاں اور "بہشت زینب” سے آنے والی رونے کی آوازیں اس بات کا احساس دلانے کے لئے کافی ہوتی ہیں کہ "شہداء” کے پس ماندگان کے دلوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟
اس واقعے میں قتل ہونے والے سو سے زاید افراد کی اکثریت ایسے ہزارہ جوانوں پر مشتمل تھی جسے جمعہ کی نماز کے بعد بہلا پھسلا کر جلوس میں شامل کیا گیا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ خود کش حملہ کرنے والا لشکر جھنگوی کا دہشت گرد بھی جنت کا متلاشی تھا جبکہ بے خبری میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کو بھی جنت کا آسراء دیا گیا تھا۔ حد تو یہ کہ اس واقعے کے عاملین آج بھی اپنے کردار پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے فخر کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ آج ایک بار پھر اسی محمود عباس اور حماس کے قدموں میں ہمارے معصوم جوانوں کے خون کی بَلی دینے کی خاطر اپنے چُھرے تیز کرنے میں مصروف ہیں جو فلسطین پر صرف ایک مخصوص سلفی فرقے کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ اور آج ایک بار پھر یہ اسی ایران کا حق نمک ادا کرنے اور اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کی خاطر معصوم اذہان کو آلودہ کرنے میں مصروف ہیں جس نے ہمیں نفرت، تحقیر، فرقہ واریت اور قتل عام کے سوا کچھ نہ دیا۔
ایران کے حکم پر کئی سالوں تک یوم القدس مناتے رہنے اور میزان چوک پر سو سے زیادہ کڑیل جوانوں کی قربانی دینے سے اسرائیل کی صحت پر کیا اثر پڑا اور فلسطین کی آزادی کی منزل کتنی قریب آئی یہ تو غاصب اسرائیلی یا مسلمان فلسطینی بھائی ہی بتا سکتے ہیں۔ میں تو بس اتنا ہی جانتا ہوں کہ اگر ہم اپنی آنکھیں بند کئے یونہی ان تاریک راستوں پر چلتے رہیں گے تو مذہب کے نام پر ہمارا ایسا ہی قتل عام ہوتا رہے گا اور”بہشت زینب” کی فضاء ہماری ماؤں بہنوں کی سسکیوں اور آہوں سے ہونہی گونجتی رہے گی۔

        ترسم نرسی بہ کعبہ ای اعرابی          *      این رہ کہ تو میروی بہ ترکستان است


Join the Conversation