بامیان کی غاروں میں زندگی

منبع: بی بی سی اردو

مرزیا اور ان کے خاندان والوں کو ان غاروں میں رہنے والے دیگر 242 خاندانوں کے ہمراہ نکالا جا رہا ہے۔ یہ 243 خاندان کبھی دس ہزار خاندان ہوا کرتے تھے۔
92562158مرزیا اور ان کے شوہر قدیر کا خیال تھا کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں جب وہ افغانستان کے صوبے بامیان میں واقع 1700 سال پرانی غاروں میں منتقل ہوئے۔_92562156_mediaitem92562155یہ غاریں گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم ہوتی ہیں۔ آس پاس قدیر کے لیے کام کرنے کے بہت مواقعے تھے لیکن اب حالات مختلف ہیں۔_92562161_mediaitem92562160          ان غاروں میں کبھی دس ہزار خاندان ہوا کرتے تھے۔_92562163_mediaitem92562162حکومت نے ان خاندانوں کو ایک پروگرام کے تحت غاروں سے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت ان غاروں کو محفوظ کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں امن آنے پر سیاحتی مقام بنایا جا سکے۔_92562175_mediaitem92562164فرشتہ احمدی 25 بچوں کا سکول چلاتی ہیں جو ان کی غار کے تین کمروں میں سے ایک کمرے میں قائم ہے۔_92562177_mediaitem92562176لیکن 12 سال گزر جانے کے بعد بھی میاں بیوی اپنے پانچ بچوں سمیت ان غاروں ہی میں رہ رہے ہیں۔ ان کی چھ سالہ بیٹی فرشتہ احمدی کی ذہنی پرورش اس وقت رک گئی جب چار سال قبل ان کے قریب ہی بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا۔_92562179_mediaitem92562178مرزیا کا کہنا ہے ’زندگی بہت مشکل ہے۔ قریب ہی واقع جھرنے سے پانی بھر کر لانا ہوتا ہے اور نو والٹ کی بیٹری کو دن کے وقت چارج کرنا ہوتا ہے تاکہ سولر پینل چل سکے جس سے رات کو روشنی حاصل ہو سکے۔‘_92562181_mediaitem92562180بامیان شہر کے مضافات میں آلو کی کاشت ہوتی ہے اور غاروں کے رہائشی اس امید کے ساتھ جی رہے ہیں کہ ان کی اگلی نسل کا مستقبل اچھا ہو گا۔_92562183_mediaitem92562182مرزیا اور قدیر میدان وردک سے جب بامیان منتقل ہوئے تو ان کا خیال تھا کہ ان کا یہ قدم ایک بہتر مستقبل کے لیے ہے۔ مرزیا کا کہنا ہے ’ہمارے پاس پیسے نہیں تھے اور میرے شوہر کے پاس نوکری بھی نہیں تھی۔ ہم وردک سے اس لیے نکلے کہ ہم غریب تھے۔‘


Join the Conversation