ھزارہ قوم اور سال 2015

تحریر: اسحاق محمدی

 مجموعی لحاظ سے سال 2015، ھزارہ قوم کیلئے بھاری رھا جنکی قدرے اجمالی تفصیل درج ذیل ہیں:

افغانستان میں دہشت گرد گروھوں نے داعش، طالبان اور افغان کوچیوں کے نام پر ھزارہ عوام کے قتل عام اور اغوا کا سلسلہ جاری رکھا۔ سو سے زاید ھزارہ مسافرین شناخت کے بعد عین سپاٹ پر یا دہشت گردانہ حملوں میں یا پھر اغوا کے بعد ماردیئے گئے جن میں تین خواتین بشمول آٹھ سالہ بچی شکریہ تبسم بھی شامل تھی جس کے خلاف تاریخ افغانستان کی سب سے بڑی احتجاجی ریلی دارلحکومت کابل میں نکالی گئی،  150ھزارہ مسافرین شناخت کے بعد اغوا کرلئے گئے۔ اس دوران دہشت گردوں نے 90 کی دھائی کے طرز پر ھزارہ جات کی اقتصادی ناکہ بندی میں مزید شدت لائی ہیں لیکن تمام تر دعووں کے باوجود کابل حکومت نہ صرف ھزارہ جات اور ھزارہ عوام کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی جاری ھے بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے ملے والی خطیر رقم سے بھی انکو محروم رکھ رہی ھے۔ دستیاب اعداد و شمار کی رو سے گذشتہ 15 سالوں کے دوران 114 رب ڈالر کی خطیر رقم کابل حکومت کو بطور امداد ملی ھے جن میں سے چند سو ملین بھی ھزارہ جات یا ھزارہ نشین علاقوں میں لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی ھے۔ مزید برآں افغان پاور سپلائی کمپنی بریشنا، جرمن بین الاقوامی فرم فشٹنر کی سفارشات کے برعکس سینٹرل ایشیا سے 500 کے وی کی پاور سپلائی لاین ( ٹیوٹاپ) کو بھی پرامن ھزارہ جات سے لانے کی بجاے درہ سالنگ سے لانے پر اصرار کرکے کھلی ھزارہ دشمنی کا مظاہرہ کررہی ھے۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے افغان مہاجرین کے بارے میں کبھی بھی عالمی قوانین کو خاطر میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ھے لیکن گذشتہ دو سالوں کے دوران تمام انسانی، عالمی اور اسلامی قوانین و اقدار کو پس پشت ڈالتے ھوے بطورخاص ھزارہ مظلوم مھاجرین کوزور زبردستی اور حیلہ و لالیچ کے ذریعے مذہبی مقامات کے تحفظ کے نام پر انہیں شام کے محاذ پر اپنے حامی اسد رژیم کی حمایت میں وھاں کی جنگ میں جھونک رہا ھے جس کی بابت حقوق انسانی کی عالمی تنظیم”ھیومن رایئٹس واچ”  نے حال ھی میں ایک تفصیلی چشم گشا رپورٹ جاری کی ھے جو ھر لحاظ سے قابل شرم اور قابل مذمت ہیں۔ تین دھایوں تک ایران میں تمام انسانی حقوق سے محروم یہ لاکھوں مظلوم افغانستانی مہاجرین اب ایران کی اس حالیہ جابرانہ پالیسی کے باعث بڑی تعداد میں ایک بار پھر مہاجرت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ھوتے ھوے یورپ کی راہ لی ہیں۔ یو این ایچ سی آر رپورٹ کے مطابق اگست 2015 تک یورپ کے تمام ممالک میں کل 122080 افغانستانی مہاجرین نے اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں جن میں اکثریت ایران سے بھاگ کر آنے والے ھزارہ مہاجرین کی ھے۔

پاکستان میں  آباد ھزارہ قوم کو گرچہ گذشتہ سالوں کی نسبت 2015 میں کمتر جانی خسارات اٹھانا پڑی یعنی کل 23 ھزارہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوایں، لیکن اقتصادی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے  یہ سال زیادہ تباہ کن رہا کیونکہ 10 جنوری 2013 میں علمدارروڑ سنوکر کلب دھرے دہشت گرد حملوں کے بعد سے ناکام ریاستِ پاکستان نے اپنے پروردہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجاے ھزارہ قوم کو دو گیٹوزمیں قید کرکے رکھدی ھے، جسکے باعث سال بسال انکی اقتصادی حالت بد سے بدتر ھوتی جارہی ھے جبکہ اس دوران، دہشت گردوں کی زیادہ کاروایوں کے محور ھزارہ تاجر پیشہ افراد، محنت مزدوری کی خاطر اپنے دونوں محصور آبادیوں یعنی ھزارہ ٹاون اور علمدار روڑ سے باہر قدم رکھنے کےوالے رہے ہیں۔ قابل غور نکتہ یہ ھے کہ گذشتہ سال کے دوران ان دہشت گردانہ حملوں میں سے کچھ قانوں نافذ کرنے والوں کے عین سامنے ھویں جیسے 25 مئی کو شارع اقبال اور 27 مئی کو کویٹہ شہرکے مرکزی سٹی تھانہ سے محض چند میٹرز دورکے واقعات، اور 7 جون کو سرکلر روڑ(نزد میزان چوک) میں ایف سی، پولیس سمیت درجنوں دیگر با وردی اور بے وردی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں کے سامنے مسلح دہشت گرد 5 ھزارہ تاجروں کو گولیوں کی بوچھاڑ سے چھلنی کرکے انکے سامنے سے با آسانی فرار بھی ھوجانا بہت سارے سوالات کو جنم دیتے ہیں جنکے جوابات پاکستانی سیکوریٹی ایجینسیز ہی دے سکتی ہیں جو دنیا میں ٹاپ ھونے کے دعودار بھی ہیں۔ یاد رہے کہ  ایشیئن ھیومن رایئٹس نے اپنی رپورٹ میں ھزارہ قتل عام کے حوالے سے واضح طور پر لکھا ھے کہ      "اکثر ھزارہ، پاکستانی سیکورٹی اداروں کی چیک پوسٹوں کے قریب 100 تا 500 میٹرز کے فاصلے پر دہشت گردی کے شکار بنے ہیں”۔

نام نہاد قومی ایکشن پلان جس کے تحت بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کے خلاف بھر پور وحشیانہ کاروایاں کیجا رہی ہیں جبکہ سندھ میں سندھی قوم پرستوں اور ایم کیو ایم کے رہنماوں اور کارکنوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج کراے جاچکے ہیں جن میں الطاف حسین کے خلاف لندن ھی میں قتل ھونے والے عمران فاروق کے قتل کی مضحکہ خیز ایف آئی آر بھی شامل ھے جو  صرف ایک پاکستانی شہری ھونے کے حوالہ سے کاٹی گئی ھے لیکن یہی ریاست، بلوچستان میں اپنے کم سے کم 1500 ھزارہ شہریوں کے قتل عام کی ایف آئی آر اپنے پروردہ دہشت گردوں کے خلاف کاٹنے سے اب تک گریزاں رھی ھے جو دہشت گردی کے ھر واقعہ کی ذمہ داری بذریعہ فون، اخباری بیان یا پھربھرے جلسوں میں قبول کرتے رھے ہیں۔ کس قدر شرم کا مقام ھے کہ دہشت گردی کے ان لاتعداد واقعات کے باوجود بلوچستان میں بقول سیکریٹری داخلہ قومی ایکشن پلان کے تحت ایک سنگل مقدمہ بھی قایم نہیں!!!؟؟؟

سال 2015 کے دوران ریاستی دہشت گردوں کے ہاتھوں ھزارہ مقتولین کی تفصیل درج ذیل ہیں:

HAZARA   KILLED IN QUETTA, Pakistan,  DURING 2015

NO. DATE NO. OF KILLED PERSONS REFERNCES
1 April, 27 3 down-by-alqaeda-affiliated-terrorists-in-quetta-pakistan/
2 May, 12 3 http://www.hazara.net/2015/05/173rd-alqaeda-attack-on-hazaras-in-pakistan-3-more-killed-several-wounded/
3 May, 25 3 Three Hazara people among four killed in Quetta
4 May,27 2 Two more Hazaras gunned down in Quetta
5 June, 7 5 http://tribune.com.pk/story/899422/four-hazaras-gunned-down-in-quetta/
6 July,6 2 http://tribune.com.pk/story/915675/three-hazaras-gunned-down-in-quetta/
7 July,7 1 https://www.google.com/maps/d/viewer?ll=30.159377
8 August, 14 1 http://www.dawn.com/news/1200623/funeral-prayers-for-sho-hamidpur-offered-in-quetta
9 November 3 1 http://dunyanews.tv/en/Crime/306813-One-killed-in-shooting-incident-in-Quetta#.VjjkiHWNiWU.twitter
10 November,7 2 http://www.dawn.com/news/1218288
Total = 23

 

 


Join the Conversation