سنی ھزارہ کا اظہار وجود، عصرِ حاضرکا مبارک ترین واقعہ!

تحریر- قنبرعلی تابش
تلخیص و ترجمہ- اسحاق محمدی

آج کل ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا پرھزارہ اور تاجیک دوستوں کے درمیان کبھی دوستانہ اور کبھی غیر دوستانہ انداز میں ایک موضوع پر بحث و مباحثہ جاری ہیں جسکا تعلق سنی ھزارہ کی طرف سے گذشتہ کئی صدیوں سے "پوشیدہ” اپنی اصلی قومی شناخت کی طرف لوٹ آنے کے جرت مندانہ فیصلے سے ھے۔ یہ ایک مبارک فیصلہ اور افغنستان کی جدید تاریخ کا ایک اھم ترین واقعہ ھے۔55b72b7570e66 بلاشبہہ کئی ملین افراد پرمشتمل ایک قوم کیلیے صدیوں تک اپنی اصلی ھزارہ شناخت کو چھپانے پرمجبور ھونا بجاے خود ایک بڑا انسانی المیہ ھے جو قومی جبرکی نشاندہی کرتی ھے۔ اس بڑے المیہ کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ھے۔ ذرا اپنے آپکو چند لمحوں کیلیے بستر مرگ پر پڑی ایک بوڑھی دادی تصور کیجیئے جو اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں اشکبار آنکھوں سے اپنے پیاروں پر یہ راز کھولتی ھے کہ "ھم ھزارہ ھیں” لیکن ساتھ ہی اسے رازمیں رکھنے کی تاکید بھی کرتی ھے۔ یا پھر اس نوجوان طالبعلم کی ذھنی اذیت کا انداہ لگا لیئے جسکے ھم جماعت روز اسے کہتے ہیں "ارے تم تاجیک کی بجاے ھزارہ زیادہ دیکھائی دیتے ھو” اور پھر قہقہوں کی زوردار آوازیں گونجنے لگتی ہیں، یا پھر کوئی اسے طعنہ دیتے ھوےکہتا ھے ” تو کیسا تاجیک ھے جسکا لہجہ ھزارہ گی ھے” !

اگرچہ افغانستان میں ھماری اجتماعی زندگی میں جبر و مصایب کی کمی نہیں لیکن ھمیں اس پر بجا طورپر فخر کرنی چاھیے کہ کم از کم اس دور میں "قومی شناخت سے انکار کا جبر” نہیں۔ بلا تردید قومی جبر کی بدترین شکل کسی قوم کو اسکی شناخت سے محروم کرکے دوسری شناخت اختیارکرنے پرمجبورکرنا ھے۔ ھم اسے جنوبی افریقہ سے نسلی امتیازکے نظام کے خاتمے سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔

اس حقیقت کے پیش نظر ھم بجا طورپر یہ امید رکھتے تھے کہ ملک کے روشنفکر حلقے تبدیلی کے اس واقعہ کو ملکی تاریخ کی اہم ترین موڑ سمجھتے ھوے اسکا والیہانہ استقبال کرینگے۔ ساتھ ھی ھماری انسانی حقوق کی تنظیم اور ذرایع ابلاغ بھی کھل کر اسکی حمایت کرینگے۔ یہ توقعات اپنی جگہ، لیکن زیادہ افسوس اس بات کا ھے کہ ھمارے تاجیک رایئٹرز غیرضروری طور پرغیر دوستانہ رویے کا اظہار کررہے ہیں اور نئی تشکیل شدہ "سنی ھزارہ کونسل” (شوریٰ سراسری ھزارہ ھای اھل سنت افغانستان) کے اکابرین پر جاہ طلبی اورتفرقہ اندازی کے الزامات لگا رہے ھیں جو کہ قطعاً درست نہیں۔ سنی ھزارہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ انکو، انکی اصلی قومی شناخت ملے یعنی تاجیک کی بجاے ھزارہ کہا جایں جو کہ انکا فظری حق ھے۔ میں کابل میں کئی ایسے تاجیک فیملیز سے واقف ھوں جنہوں نے بہ وجوہ ماضی میں اپنے آپکو سرکاری دستاویزات میں پشتون لکھواے ہیں اب اگر وہ اپنے اصلی شناخت کی طرف آتے ہیں تو بلا کس کو اعتراض ھوسکتا ھے۔

ھم تاجیک روشنفکر اکابرین جیسے ڈاکٹر اسپنتا، ڈاکٹرلطیف پدرام، استاد پرتونادری، مجیب مہرداد، یاسین اوردیگر سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس اھم ترین قومی ایشو پر خاموشی اختیار کرنے کی بجاے آگے آکر تاجیک عوام کے درمیان شکوک وشبہات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔

 


Join the Conversation