کیا پاکستان میں "ھزاراہ” نسل کشی ھورھی ھیں؟

تحریر:-اسحاق محمدی

پچھلے دنوں بی بی سی اردونے پاکستانی دانشورں سےسوال کیاتھا کہ "کیا پاکستان میں جاری شعیہ ٹارگٹ کلنگ نسل کشی کے زمرے میں آتاھے؟ اسکے جواب میں معروف صحافی نسیم زہرہ نے کہاتھا.

"جب میں یہ لفظ (نسل کشی) سنتی ہوں تو مجھے پریشانی ہوتی ہے کیونکہ درحقیقت پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان میں میرے نزدیک کسی کی نسل کشی ہو رہی ہے تو وہ ہزارہ ہیں کیونکہ انہیں ایک علاقے سے نکالنے یا ان کے خاتمے کی باقاعدہ منظم کوشش کی جا رہی ہے”۔ 1

آیئے سب سے پہلےعلمی لحاظ سے "انسانی نسل کشی” کی تعریف جاننے کی کوشش کرتے ھیں۔ انسائکلوپڈیاآف برٹینیکا میں نسل کشی کی یہ تعریف کی گئی ھے "کسی بھی انسانی گروہ کی اراد تاۤ اور منظم انداز میں نسلی، گروھی اور عقیدے کی بنیاد پر ھلاکتوں کو نسل کشی کہا جاتاھے"۔ جبکہ اقوام متحدہ کی تعریف میں درج بالااقدامات کے علاوہ "جا نی اور ذھنی نقصان پہنچانے اور اجتماعی زندگی پر کلی یا جزوی منفی طورپر اثرانداز ھونےغیرہ جیسے اقدامات کو بھی نسل کشی کے زمرے میں شامل کیا ھے”۔ 2

اب اس بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ تعریف کی روشنی میں دیکھتےھے کہ پاکستان اور بطورخاص بلوچستان میں گذشتہ پندرہ سالوں سے جاری ھزارہ قتل عام کے سلسلے کو "ھزارہ نسل کشی”کا نام دیا جا سکتا ھے کہ نہیں۔

1۔کوئیٹہ میں "ھزاروں” پر پہلادھشت گردانہ حملہ6 اکتوبر 1999 کو رکن بلوچستان اسمبلی اور اس وقت کے صوبائی وزیرتعلیم سردار نثارعلی ھزارہ پر بلوچستان اسمبلی اور بلوچستان ہائی کورٹ بلڈنگز کےعین سامنے دن دھاڑے ھوا جسمیں اسکا ڈرائیور ھلاک جبکہ وہ خود اپنے باڈی گارڈ کے ساتھ شدید ھوئے۔اس واقعہ کےبعد دہشتگردی کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑا جو رکنے میں نہیں آرھا جسمیں اب تک 1500 سے زاید ھزارہ شہید اور سا ڑھے تین ھزار سے زاید زخمی ھوچکے ھیں جنمیں زن ومرد،پیر و جوان یہاں تک کہ شیرخوار بچےبھی شامل ھیں جبکہ باقیوں کو قتل کی سنگین دھمکیوں کا سامنا ھیں۔لیکن اس طویل عرصے اور اتنی بھاری جانی نقصانات کے با وجود کسی ایک دہشت گرد کو بھی سزا نہیں ھوئی ھے۔ اگران دہشت گردانہ حملوں کی نوعییت کا جایزہ لیاجاے تو یہ حقیقت کھل کر سامنےآتی ھے کہ دہشت گرد صرف” یک نکاتی ایجنڈہ”پر کاربند رھے ھیں اور وہ یہ کہ بلوچستان،بطورخاص کویئٹہ میں آباد ھزارہ قوم کو ھرلحاظ سےمفلوج کرکے پاکستان چھوڑنے پر مجبورکیاجاے۔ اسی لیے وہ عام راہ چلتے ھزارہ سے لیکر سبزی فروشوں اور بڑےتاجروں سے لیکر مختلف شعبہ ھاے زندگی سے وابسطہ ممتاز شخصیات کو محض دیکھتےھی (رینڈملی) یا پھر منصوبہ بندی کرکے دہشت گردی کا نشانہ بناتے رھے ھیں۔

اس حقیقت کا برملا اظہار لشکرجھنگوی نے 6 مئی 2011 کو ھزارہ ٹاون پر اپنے پہلے براہ راست منصوبہ بند حملے کےبعدایک پمفلٹ کے ذریعےکیا (کاپی منسلک ھے)۔یادرھے کہ اس دن راکٹ لانچرز اوربھاری مشن گنوں سمیت جدید ترین اسلحوں سے لیس گاڑیوں پر سوار درجنوں دہشت گردوں نے براہ راست ھزارہ ٹاوؑن پر دن کی روشنی میں حملہ کرکے مارننگ والک پر آے 8 بےگناہ "ھزاروں” کو شہید اور دیگر 15 کو زخمی کرنےبعدسیکوریٹی فورسیز کے آنے سے پہلےآسانی سے حسب معمول فرار ھونےمیں کامیاب بھی رھے تھے حالا نکہ دہشت گردی کی یہ کاروائی ایک گھنٹے سے زایددیرتک جاری رہی تھی۔ غورطلب نکتہ یہ ھے کہ مغربی بائی پاس سے متصیل، حملےکی زد میں آنےوالے ھزارہ ٹاوؑن کے اس حصے سے ایف-سی چیک پوسٹ محض چندسومیٹرزکی دوری پرھے جبکہ بروری پولیس تھانہ اور ایف-سی ھیڈکوارٹر(ایوب سٹیڈیم) تین اور پانچ کلومیٹر کےفاصلےپرواقع ھیں، یعنی حملہ آور دہشت گردوں کے پاس فرار کی کوئی گنجایش ھی نہیں۔

2۔ 2012کے اوایؑل میں لشکرجھنگوی نےمزیدآگےبڑھتےھوے 2012 میں "ھزاروں”کو بلوچستان سے نکل جانے اوراس پر عمل درآمد نہ ھونے کی صورت میں سینگین نتائج بھگتنے کا الٹی میٹم جاری کردیا جسکا بعدازآں وقتاۤ فوقتاۤ مختلف دہشت گردانہ حملوں کےبعد اخبارات کے ذریعے یاددھانی بھی کراتی رھی۔

3۔ 10جنوری 2013 کو علمدار روڈ سےمتصیل حاجی رحمت اللہ روڈکے ایک سنوکرکلب میں یکےبعد دیگرے پہلے خودکش اوربعداز آں امدادی کارکنوں کی آمد پرریموٹ کنٹرول کاربم حملےکرائے گئے جسمیں کم از کم سو لوگ شہید اور 280 سے زاید زخمی ھوگئے جنکی بڑی اکثریت "ھزاروں” پر مشتمل تھی،جسکےبعد لشکرجھنگوی کی طرف سے بیان آیا کہ "چونکہ انکی طرف سے 2012 تک انکو بلوچستان سے نکل جانے کی الٹی میٹم کی مدت ختم ھوچکی ھے لہذا اب انھیں بلوچستان سےنکلنے کی اجازت نہیں دیجائیگی بلکہ انہیں صفحہؑ ھستی سےمٹانے(نسل کشی)کیلیے کاروایوں کا سامنا کرنا پڑیگی۔ (کاپی منسلک ھے) یاد رھے کہ اس دوران ھزارہ قوم، پاکستان میں جاری اپنی اس نسل کشی کے خلاف دنیابھر کے 20 ممالک کے 30 سے زاید شہروں میں کم از کم دوبار اپنا بھر پوراحتجاج ریکارڈ کراکر پاکستان پر موثر سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی دباوؑ ڈالنے میں کامیاب ھوچکی تھی جسکی وجہ سے طاقتور فوجی اسٹبلیشمنٹ کے یہ پروردہ پراکسی محض دنیا کو گمراہ کرنے کیلیےاپنے اخباری بیانات میں ماضی کے برعکس "ھزارہ” کی بجاے لفظ "شعیہ” استعما ل کرنے لگےتھے حلا نکہ صاف ظاھر ھیں کہ:-

الف۔ لشکرجھنگوی یا اس سے منسلک کسی بھی دیگر دہشت گرد تنظیم نے پاکستان کےکسی اور کونے میں کسی بھی شعیہ کمینوٹی کواسطرح اپنی تمام ھست و بود یعنی کئی نسلوں کی کمائی کو یونہی چھوڑ کر نکل جانے یا پھر نسل کشی کیلیے تیار رھنے کا الٹی میٹم جاری نہیں کیاھے کیونکہ انھیں معلوم کہ اگر عام شعیہ صرف اپنا محلہ تبدیل کریں تو انکی شناخت ناممکن ھوجاتی ھے لہذا انکی طرف سےاسطرح کی دھمکی ایک حماقت ھوگی، جبکہ "ھزاروں” کیلیے اپنی منگولیائی شناخت کو چھپانا ھی ناممکن ھیں ۔

ب۔ عام لوگوں کو "ھزاروں” سے میل جول رکھنے،دکانداروں کولین دین کرنے اور ٹرانسپورٹرز کو انھیں لیجانے کی ممانعت کردی گئی ھیں۔ (ایک نمونہ منسلک ھے)

ج۔ اب صورتحال یہ ھے کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران بلوچستان کی ھزارہ آبادی، صوبائی دارلحکومت کوئیٹہ کے دو گیٹوز (محلوں) علمدار روڈ اور ھزارہ ٹاوؑن کے چند مربع کلومیٹرکے رقبےمیں محاصرے کی زندگی گزارنے پرمجبور ھیں لیکن اسکے با وجود ان پر انہی محصور ؐمحلوں میں ایک درجن کے قریب خودکش حملے ھوچکےھیں۔ وہ ان گیٹوز سے اپنے روزمرہ کاموں کے سلسلےمیں اپنی زندگی کو داوؑ پرلگاکر اس چھوٹے شہر کےمحض 10 فیصدعلاقےتک دن کی روشنی میں یوں جا آ سکتے ھیں کہ انھیں خواہ مرد ھوں یا خواتین ھر بارسخت سیکوریٹی چیکینگ کے مراحل کو گذارنا ھوتےھیں۔ شہرکے باقی 90 فیصد علاقے ان کیلیے” نوگو” (ممنوعہ) بن چکے ھیں جسکے ھر کونے کدرے میں مسلح دہشتگرد قاتل انکے تاک میں رھتے ھیں جنکی کہیں تلاشی نہیں لیجاتی حلا نکہ بقول وفاقی وزیر داخلہ، "کوئیٹہ ملک کا سب سے زیادہ سیکوریٹی رکھنے والا شہرھے جھاں ھر 100 میٹرز کے فاصلے پر کسی نہ کسی سیکوریٹی ایجنسی کا چیک پوسٹ ضرورھے "ٗ صوبے کے دیگر علاقے تو بہت دور کی بات ھے۔ گویا اس وقت کوئیٹہ کی چھ لاکھ کی ھزارہ آبادی کو بیک وقت نسل کشی (قتل یا قتل ھونےکی سنگین دھمکیوں) کے علاوہ سیاسی، اقتصادی،سماجی اور تعلیمی تنھایئوں کا بھی سامانا ھیں جو دیگرشعیہ افراد بشمول پاڑہ چنار یا اقلیتی گروھوں (احمدی،کرسچن، ھندو وغیرہ) کو ایسی مخدوش صورتحال کا سامنا نہیں۔

4۔ انہی تلخ حقایق کی بنیاد پر بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیم ھیومن رائٹس واچ کو مجبور ھونا پڑا کہ وہ پاکستان میں جاری شعیہ قتل عام کے تناظر میں "ھزارہ نسل کشی” کو72 صفحات پر مشتمل ایک علحدہ جامع رپورٹ "ھم زندہ لاشیں ھیں ” کے ٹائیٹل سے مرتب کریں،جسمیں تفصیل کے ساتھ ایکیسویں صدی کے اس انسانی المیے کو بیان کیا گیا ھے ۔3

قارئین کرام! اگر”نسل کشی” کی ذکرشدہ مسلمہ تعریف کو مدنظر رکھیں اور درج بالا بنیادی نکات کی روشنی میں پاکستانی ھزارہ کے ساتھ روا رکھنے والے گذشتہ پندرہ سالہ انسانیت سوزواقعیات کا جایزہ لیں توواضح طور پاکستان میں جاری ھزارہ ٹارگٹ کلنگ، "نسل کشی” کے زمرے میں آتی ھے،جسکی صداقت میں کوئی کلام نہیں۔

حرفِ آخر

گرچہ ھزارہ سیاسی اداروں، شخصیات،دانشوروں اور دیگر بیدار طبقوں بطورخاص ھزارہ ڈایاسپورا کی مشترکہ جد و جہد کی بدولت گذشتہ چند سالوں کے دوران ھزارہ نسل کشی کے مسؑلے کو دنیا بھر کے تمام اھم اخبارات و جراید اور ٹی وی چینلز میں نمایاں کوریج ملی ھیں جسکی وجہ سے تمام اھم ممالک اور بین الاقوامی اداروں کو اس بابت لب کشائی کرنا پڑی ھیں، تا ھم برطانوی پارلیمان میں منتخب اراکین پرمشتمل گروپ "فرینڈز آف ھزارہ” جو برطانیہ میں مقیم ھزارہ دوستوں کی مخلصانہ کوششوں سے تشکیل پائی ھے اور جس نے برطانوی پارلیمان، یورپی پارلیمان اور اقوام متحدہ سمیت تمام فورمز میں "ھزارہ نسل کشی” کو موثر طریقے سے اٹھایا ھےکے سوا دیگر ممالک کے دوستوں کی طرف سے خاص پیشرفت نظر نہیں آرھی ھے۔ اس ضمن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ھے۔ ھزاروں بےگناہ "ھزاروں” کو ھلاک یا زخمی کرنے اور لاکھوں دیگر کو آے دن قتل کرنے کی دھمکی دیکر ذھنی اذیت کی کیفیت میں رکھ کر نسل کشی کے جرم کے مرتکب دہشت گردوں اوردرپردہ انکو سپورٹ دینےوالوں یعنی ملا-ملٹری کو چاھے پاکستانی عدالتیں سزا دیں یا نہ دیں، انہیں نازی مجرموں کی طرح عا لمی عدالت انصاف کے کہٹیرے میں لا نے کیلیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ھیں۔

حوالہ جات

1. http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/12/121230_shia_killings_piece_zs.shtml
2. http://www.teachgenocide.org/files/UN%20Definition%20of%20Genocide.pdf.
3. http://www.hrw.org/sites/default/files/reports/pakistan0614_ForUplaod.pdf

1

Threat to leave

2


Join the Conversation