فیض محمد کاتب ھزارہ: ایک نابغہ روزگار مورخ!

تحقیق و تحریر : اسحاق محمدی

باباے تاریخ افغانستان کے لقب سے یاد کئے جانے والے فیض محمد کاتب کا تعلق ھزارہ مغل قبیلہ محمد خوجہ سے ھے جنکے والد سعید محمد، اصل میں ناور کے قریہ "گردنِ بخارا” کے رہنے والے تھے لیکن بعد میں غزنی کے قریب قرہ باغ کے قریہ "زرد سنگ” میں جاکر آباد ھوگئے، جھاں کاتب کی پیدایش ھوئی۔ فیض محمد کاتب ھزارہ کی سن ولادت کے بارے میں متضاد آراء پاے جاتے ہیں مگر مورخین کی اکثریت انکی پیدایش 16 رمضان 1279 ھ ق بمطابق 7 مارچ 1863ء پر متفیق ہیں۔ اس وقت کے دستور کے مطابق کاتب نے ابتدائی تعلیم اپنے قریہ کے مسجد کے عالم، شیر محمد سے حاصل کی جو سپارہ، قران ، دیوان حافظ شیرازی، عربی صرف و نحو پر مشتمل تھی، ساتھ ھی چونکہ انکے والد خود اچھے کاتب تھے اس لئے انکی زیر نگرانی خوشنویسی کی تربیت بھی لیتے رھے (یاد رھے کہ 1888 کے دوران اسی عالم، شیر محمد کی بیٹی سے کاتب کی پہلی شادی ھوئی) ۔ 1886 میں وہ مزید تعلیم کیلئے پہلے قندھار گئے جہاں اس وقت کے معروف سنی عالم محمد سرور اسحاق زی سے کسب علم کیا اور پھر لاھور چلے گئے۔ قیام لاھور کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں کہ انھوں نے کن اساتذہ سےکیا کسب فیض کیا تاھم یہ بات یقینی ھے کہ کاتب نے یہاں سے بھی مروجہ علوم کے مدارج کامیابی سے طے کرنے کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں پر بھی عبور حاصل کیں جبکہ فارسی، عربی اور پشتو پر پہلے ھی عبور رکھتے تھے۔

1890 میں وہ کابل چلے گئے اور اپنے قندھار کے استاد، محمد سرور اسحاق زی سے کسب علم کی جو اس وقت امیر کابل کے بیٹوں حبیب اللہ خان اور نصراللہ خان کے اتالیق کے طور کام کرتے تھے۔ یہاں کاتب نے کئی اھم علمی کتابیں جیسے تحریر اقلیدس، خلاصتہ الحساب وغیرہ پڑھنے کے علاوہ متعدد کتابوں کی کتابت بھی کیں۔ انکے کام اور صلاحیتوں سے متاثر ھوکر فروری 1893 میں محمد سرور اسحاق زی نے ولیعہد شہزادہ حبیب اللہ خان سے کاتب کی سفارش کروا کر اسکے دفتر میں "منشی” کے عہدہ پر تقرر کروا دیا جہاں اسکی سالانہ تنخواہ 200 کابلی روپے تھی۔ اس دوران حبیب اللہ خان جلال آباد منتقیل ھوگئے اور فیض محمد کاتب بھی ان کے ھمراہ چلے گئے۔ یہاں کاتب، روز مرہ خطوط اور فرامین کے علاوہ متعدد کتابوں کی کتابت کیں۔ 1898 میں حبیب اللہ خان نے انھیں ترقی دیکر دارالنشاء کابل بھیجدیا جھاں اسکی سالانہ تنخواہ 320 کابلی روپے(1907 تک یہ رقم سالانہ 3020 تک بڑھا دی گئی) تھی اور ساتھ ھی انھیں باقاعدہ تاریخ نویسی کی اجازت بھی دیدی۔ یوں کاتب ھزارہ نے "تحفتہ الحبیب” کے نام سے اپنی پہلی تاریخی کتاب کی شروعات کیں لیکن اسکی تکمیل کے بعد بھی انکی تحریریں آیندہ تین دھایوں تک جاری رھی جسکے دوران اس نے 6000 سے زاید صفحات پرمشتمیل درج ذیل کتابیں لکھیں جن میں سے چند ایک کے سوا باقیوں کو اشاعت نصیب نہیں ھوئی کیونکہ کابل حکمرانوں میں ان کتابوں کے اندر کی سچھائیوں کو برداشت کرنے کی ھمت نہیں تھی اور اب تک نہیں:
1۔ تحفتہ الحبیب 3 جلدیں (غیر مطبوعہ)
2۔ سراج التواریخ 4 جلدیں (1،2،3 جلدیں مطبوع، جلد4 غیر مطبوعہ)
3۔ حکمای متقدمین (مطبوعہ)
4۔ فیضی از فیوضات (غیر مطبوعہ)
5۔ تذکرۃ الانقلاب (حالیہ مطبوعہ)
6۔ امان التواریخ 4 جلدیں (غیر مطبوعہ)
7۔ نژاد نامہ افغان (حالیہ مطبوعہ)
8۔ فقرات شرعیہ (غیر مطبوعہ)
9۔ وقایع دارالسنطتہ ھزارہ جات وترکستان (غیر مطبوعہ)
10۔ ذمام داری و سیاست کشور داری (غیر مطبوعہ)

مندرجہ بالا کتابوں کے علاوہ فیض محمد کاتب ھزارہ نے 4000 سے زاید صفحات پرمشتمل مختلیف موضوعات کی معروف کتابوں کی کتابت بھی کیں ہیں یوں ان سب کا مجموعہ 10000صفحات سے زاید بن جاتے ہیں جن میں سے کئی درجن اب خطی نسخوں کی صورت میں افغانستان نشنل آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔ چند کتابیں ھمسایہ ممالک ایران و پاکستان میں ہیں یا پھر مفقودالاثرھوچکی ہیں۔ معروف ھزارہ مورخ جناب حاج یزدانی کو یقین ھے کہ کاتب کی بعض مفقودالاثر یا نا معلوم کتابیں ، کابل میں اُس وقت، تعینات ایرانی سفارتکار سید مھدی فرخ کی ذاتی کُلیکشن میں ھونگی جہاں سےموصوف انکی ایک کتاب "نژادنامہ افغان” کو نکالنے اور اسے پببلیش کرنے میں کامیاب رھے ہیں جسکے بارے میں پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اسی طرح نشنل میوزیم آف پاکستان کراچی کے مخطوطات کے کلیکشن میں، خود مجھے شادروان کاتب کی ہاتھ کی لکھی کتاب "تحفیہ حبیبیہ” کے نام سے ایک خطی نسخہ دیکھنے کا موقع ملا ھے جیسے عبدالحی حبیبی نے فروخت کردیا ھے۔ اب مجھے معلوم نہیں یہ اسکی کونسی جلد ھے نیز یہ کہ آیا اسکی کوئی اور کاپی افغانستان میں موجود بھی ھے کہ نہیں۔

فیض محمد کاتب ھزارہ کو نہایت نا مساعد حالات اور کڑی سنسرشپ میں کام کرنے پڑتے تھے۔ طویل عرصے تک انکی مندرجات کو katib2پہلے اس وقت کے قاضی القضاۃ سعداللہ خان، شاھی کتابخانہ کے سربراہ سردار یوسف خان سمیت کئی دیگر لوگ کاٹ چھانٹ کرفاینل سنسر کیلئے خود حبیب اللہ خان کے پاس بھیجتے تھے۔ چنانچہ تحفۃ الحبیب اور سراج التواریخ کے خطی نسخوں میں جا بجا حبیب اللہ خان اور دیگر کے سنسرکردہ جملے/پیراگراف اور نا پسندیدگی کے ریمارکس نظرآتے ہیں، لیکن اسکے با وجود یہ شاد روان "کاتب بزرگ” کی مہارت اور قلم کا اعجاز ھے کہ وہ حقایق کو دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رھے۔ سراج التواریخ کی ابتدائی دو جلدوں کی اشاعت کے بعد جب اسکی تیسری جلد کی چند کاپیاں 1914ء میں سرکاری پرنٹینگ پریس میں چھپ کر عام لوگوں کی دسترس تک پہنچ ھی پائی تھی کہ اسکی مندرجات کی سچھائی سے دربار کے در و دیوار ھل گئی۔ راتوں رات اسکی چھپائی روک دی گئی، بازار میں موجود تمام جلدیں جمع کروا کر اسے نذرآتش کی گئی لیکن خوش قسمتی سے اسکی چند جلدیں، تمام تر حکومتی کوششوں کی کتاب سے محبت کرنے والوں کے پاس محوظ رہ گئی۔ یاد رھے کہ سراج التواریخ کی یہ جلد امیر جابرکابل عبدالرحمان کے دور حکومت 1901-1880 اور انکی جنگوں بشمول جنگ ھزارہ جات سے متعلق ہیں۔ اسکے بعد اسکی کسی تالیف کوبیسویں صدی کے طویل عرصے تک اشاعت کی اجازت نہ ملی۔ لیکن اپنے مستند اور ناقبل انکار شواھد،صاف گوئی، دلنشین انداز تحریر اورتاریخی واقعات کو تفصیل سے احاطہ کرنے کے باعث شادروان فیض محمد کاتب ھزارہ” باباے تاریخ افغانستان کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرنا بیجا نہ ھوگا کہ چونکہ کاتب کو اپنے کام اور کاز سے جنون کی حد تک عشق تھا اس لیے بعض اھم کتابوں جیسے سراج التواریخ جلد سوم کی ایک سے زاید کاپیاں اپنے لیے بھی لکھ رکی تھی۔ جبکہ سراج التواریخ کی اسی جلد سوم کی پشتو ورژن خود انہی کے نفیس خط میں بھی موجود ھے (نمونہ منسلک ھے)۔

اب جبکہ کتاب سراج التواریخ جلد سوم کی غیر سنسر شدہ کاپی سمیت اسکی کئی دیگر کتابیں نیز سراج کی اس جلد کا انگریزی میں ترجمہ معروف امریکی مورخ، پروفیسر رابرٹ ڈی میک چیسنی کی کوششوں سے 2012ء میں نیویارک سے بھی چھپ چکی ہیں، ایسے میں امید کیجاتی ھے کہ انکی دیگر تالیفات بھی زیور طبع سے آراستہ ھوکر حقایق کی متلاشی لوگوں تک پہنچ جایگی۔

فیض محمد کاتب بیک وقت فارسی، پشتو، اردو،عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے، زبان و بیان پر اسے ملکہ حاصل تھا، خوشی نویسی میں یکتا، جرات بیان اور حق گوئی کے دلدادہ، ساتھ تمام شاھی ریکارڈز اور کتب خانے تک اسے رسائی حاصل تھی۔ ان تمام صفات کے یکجا ھونے سے وہ نابغہ روزگار مورخ اور باباے تاریخ افغانستان اور دیگر قابل فخر القابات کے مستحق قرار پاے۔ یاد رھے کہ افغانستان سمیت کئی ملکوں کے مورخین، بہت ساری خوبیوں کی بدولت، غزنوی دور کے شہرہ آفاق مسلم مورخ ابولفضل بیھقی کے حوالے سے "کاتب ھزارہ” کو "بیھقی عصر” کہتے ہیں لیکن پروفیسر رابرٹ میک چیسنی کہتے ہیں کہ "بیھقی اپنے عصر کے کاتب تھے” یعنی کاتب بزرگ ھزارہ، ابولفضل بیھقی سے کئی بڑے مورخ ھے اور یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں کیونکہ جن حالات میں شادروان کاتب ھزارہ کو کام کرنا پڑا جس میں حق گوئی پرھرکسی کو کھڑے کھڑے کوڑے مارے جاتے یا پھر زبان سمیت دیگر اعضاے بدن کاٹے جانے کی ھولناک سزایں دی جاتیں وھاں، سچھ لکھنا مشکل نہیں ناممکن تھا لیکن اس تاریخ ساز شخص نے اپنی یہ تاریخی ذمہ داری اس بخوبی سےنبھائی کہ سب آج تک سبھی انگشت بدندان ہیں اور
وہ بھی اسقدرتفصیل اور خوبصورتی سے کہ انکے بعد آج تک کوئی اور انکی گرد تک نہیں پہنچ پایا ھے۔ نیز انکے بدترین مخالفین بھی انکے بیان کردہ حقایق کو چیلینج نہیں کرسکے ہیں۔

فیض محمد کاتب ھزارہ ایک حق گو مورخ کے ساتھ ایک حق پرست انسان اور ایک دردمند دل ھزارہ بھی تھے۔ افغانستان کے سلسلے میں وہ آئینی بادشاھتی نظام کے سرخیلوں میں تھے جسکے تحت بادشاہ و رعایا آیئن کے دایرے میں رھتے ھوئے کام کریں اور کوئی آیئن و قانون سے بالاتر نہ ھو، جبکہ ھزارہ عوام کے خلاف ریاستی، نسلی اور لسانی وحشیانہ مظالم کو نہ صرف مہارت سے تاریخ کے اوراق میں قلمبند کیا بلکہ موقع ملنے پربادشاھان وقت امیر حبیب اللہ اور امیر امان اللہ کو اس ضمن میں براہ راست خطوط بھی لکھے جو سراج التواریخ کے صفحات میں موجود ہیں، حالانکہ انھیں بخوبی علم تھا کہ بادشاہ وقت کی ایک جنبش ابرو سے اسکی زندگی جاسکتی ھے۔

اس عظیم مورخ کی وفات 16 شعبان 1349 ھ ق مطابق 6 جنوری 1931ء کو کابل میں ھویں اور وھی چندول میں آسودہ خاک ھوے۔ عام طورپر یہ کہا جاتاھے کہ "حبیب اللہ کلکانی عرف بچہ سقو” نے ھزارہ جات میں اسکی حکومت کیلئے حمایت حاصل کرنے میں ناکام لوٹنے پر کاتب ھزارہ کو زندان میں ڈالدیا جہاں ان پر جسمانی تشدد کی گئی جسکی وجہ سے بعد میں انکی وفات ھوئی۔

ںوٹ:
اس آرٹیکل کی تیاری میں انٹرنیٹ پر موجود کئی معیاری تحقیقی فارسی و انگریزی مواد بشمول بی بی سی اور پروفیسر رابرٹ ڈی میک چیسنی کی لکھی ھوئی کاتب ھزارہ کی بائیوگرافی سے استفادہ کرنے کے علاوہ شادروان کے نواسے، جناب رضا کاتب کی فراھم کردہ معلومات سے بھی استفادہ کیا گیا جس کیلئے میں انکا بے حد ممنون و مشکور ھوں۔


Join the Conversation